راستی سے گریز لوگوں کیلئے چھُپ گئے ہموار راستے
جس پر دیوانگی چل پڑی وہ سبھی تھے دشوار راستے
تسکین میں وہ تروتازگی بھی نہ رہی باقی
الجھنوں سے پہلے یہی تھے سب چمکدار راستے
شدتوں کو پھر کہاں سے لگام ڈالیں
عہد سلطنت دوڑ رہے ہیں شہسوار راستے
ہم ہی غافل نکلے تو حسب معموُل کی بات تھی
کچھ منزلوں پر بھی رہے ہیں جان نثار راستے
زمانے کو ہم نے اپنے پاؤں کے زخم دکھادیئے
وہ تو فقط حوصلوں پہ کرتے تھے اعتبار راستے
رنج سے تردید ہی صحیح کچھ دن تو جی لیں
زندگی کو زندگی بنانے لیئے سبھی ہیں موتمار راستے