رستہ بھی کٹھن اور منزل کی مسافت بھی بہت ھے
پاؤں بھی آبلہ پا اور دھوپ میں شدت بھی بہت ھے
یاد رھے سر راہ کوئی مسافر لوٹنے نہ پائے بیلی
حفاظت توسہی مگر اندھیری رات بھی بہت ھے
دوست تو ھمہ تن گوش سھی مگر یہ احساس
کہ داستان شب غم میں طوالت بھی بہت ھے
ظلمت شب میں بھی روشنی کی امید باقی ھے
لب بھی سوکھ گئے اور بدن میں حرارت بھی بہت ھے
رنگ و نسل کی منافرت کو مٹانے کے لیےصبع و شام
منہ میں زبان تو ھے مگر ھم میں بغاوت بھی بہت ھے
غریبوں کے لہو سے حکمرانوں کے ھاتھ آلودہ ھیں اگر
جان لو ھمیں کلمئہ حق کہنے کی عادت بھی بہت ھے
گلشن میں گلوں کی حفظ آبرو پہ حیران کیوں ھو
آخر خاروں کی گلوں سے رفاقت بھی بہت ھے
بارش کی دعاؤں کے ساتھ ھی جل تھل کیسے
یہ تو سچ ھے مانگنے میں خشیت بھی بہت ھے
حسن یاد کرو باھر گلی میں فقیروں کی صدا پردوڑیں
ویسے بھی ھمیں مسکینوں سےمروت بھی بہت ھے