سمجھ رہا ہے تو جن کو خیر خواہ اپنا
اسی زبان سے کہے گا حقیقی دشمن ان کو
وقت کے ساتھ یوں بدلیں گے تیرے آشنا
ساتھ ہو کر بھی سمجھ نہ پائے گا ان کو
یہ دستور دنیا ہے کہ حد میں رکھو سب کو
جو حد سے گزر جائیں سلام کہہ دو ان کو
تیری رفاقت تیری محبت کسی کام نہ آئی ترے
ایسے بکھرے وہ کہ سنبھال نا پایا تو ان کو
بہت کارگر ہوا ثابت جو کیا وار سب نے
پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھ سکا تو ان کو
ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے چلتا ہے تو جن کے ساتھ
یاد کرکے بھی نہ یاد آئیں ایسا بھول جائے گا ان کو
انسانیت کو ڈھونڈ انسان کو چھوڑ اے کاتب
دل تیرا ہو دھڑکے ان میں،تلاش کر ان کو