رنگ بدلتی رَتوں نے بہت پتے کی بات بتائی
رات کے بعد سحر نے زندگی کی راہ دِکھائی
آؤ کبھی خاموش بیھ کے اپنے من کو ٹٹولیں
ممکن ہے ہم پہ عیاں ہو جائے ذات کی سچائی
وہم و گماں سے باہر آؤ اور آ کے آواز اَٹھاؤ
کوئی نہ کوئی تو آ ہی جائے گا کرنے ہمنوائی
گم صم کیوں بیٹھے ہو آخر کچھ نہ کچھ تو بولو
سامعیں ہمہ تن گوش ہیں اب کر دو لب کشائی
آواز نہیں اَٹھاؤ گے تو انقلاب کیسے لاؤ گے
چپ سادھ کے بیٹھنے سے ملتی نہیں رہائی
کاسہ توڑو خودی اپناؤ اپنی دنیا آپ بساؤ
آخر کب تک کرتے رہو گے غیروں کی گدائی
عظمٰی جو ہم سے کہی ہم نے کہیں سے سَنی
جو بھی اچھی بات لگی اورروں کو بھی سَنائی