روز مِلنے کا مرا وعدہ نہیں
کیا خبر کل زِنده ہونگا یا نہیں
لَگ گئ شاید رقیبوں کی نَظَر
مُجھسے مِلنے یار جو آتا نہیں
واه نَصیبا تیری ہیرا پھیریاں
سامنے ہو کے بھی وه میرا نہیں
ایسے بھی دِن آئیں گے سوچا نا تھا
میں جو دِل مانگوں وہ کہہ دے گا نہیں
میں خُدا کی ذات سے ڈرتا ہوں بَس
بندوں کے آگے کبھی جُھکتا نہیں
میری جانب دیکھ نا حیرت سے تُو
تُجھ کو جو لگتا ہوں میں ویسا نہیں
بات سَچی موں پہ ہی کہہ دیتا ہوں
سَچ کو کہنے سے میں گھبراتا نہیں
شاعری میں ہے مُجھے حاصِل کمال
ہاں مگر اِتنا مرا چرچا نہیں
باقرؔ اُس کی دیکھ نا اِنصافیاں
دِل مرا واپس مُجھے دیتا نہیں