آؤ خود ساختہ بجلیوں کو آج یوں ہم گرا دیں
کہ اپنے ہی آشیانوں کو خود ہی ہم جلا دیں
ہوئی ہے آگ ٹھنڈی گر ہوا کے تھم جانے سے
اک پر سے بھڑکائیں شعلے، اک پر سے ہوا دیں
آؤ کھینچ لائیں حق کو پھر سے سردار
جو منصور کوئی ہو ہم میں اسے سولی پہ چڑھا دیں
منصب عطا کریں اسے جو مقتل کا پاسباں ہو
مکتب کے پاسباں کو مکتب میں ہی دفنا دیں
چلو آتش نمرود کو بھڑکا دیں مل کے چار سو
اس وقت کے ابراھیم کو پھر سے وہی سزا دیں
آؤ ھر دور کے موسی کو پھر امتحاں میں ڈالیں
چلو کہ وقت کے فرعونوں کو پھر سے ہم پناہ دیں
اس کا کیا کام یہاں “کم“ سے جو جلا بخشے
ہر قوم کے مسیحا کو بس چلیپا پہ چڑھا دیں
ایفائے عہد سے غرض کیا، بیعت یزید کر لیں واجب
حسین جو آئے درمیاں تو پھر سے نیا کربلا دیں
خدا کا تو بس نام ہے بیت الله سے واسطہ کیا
ہم روشن خیال لوگ ہیں، مندر دیں کہ کلیسا دیں