ہاتھ میں تیر اور کماں لے کر
جان ِ جاں کیا ملے گا جاں لے کر
میں جلاتا پھروں گا گھی کے چر
آپ کے دل میں اک مکاں لیکر
ایک عرصے سے مہربان نہیں
کیا کروں گا میں آسماں لیکر
زندگی دو گھڑی کو سانس تو لے
پھر رہی ہے کہاں کہاں لے کر
آپ ہی کی زبان بولتی ہے
بے زبانی مری زباں لیکر
تشنہ لب کھیلتا ہے ساحل پر
اک سمندر کی دھجیاں لے کر
مانگ بھرنے تری ستاروں سے
آرہا ہوں میں کہکشاں لے کر
غم زمانے کے اور فرقت کے
جائیں گے ہم بھلا کہاں لیکر
برق چاہے تو شوق پورا کرے
چل پڑے ہم تو آشیاں لیکر
تپتے سورج کا جب زوال ہوا
آگئے دوست سائباں لے کر
آج پھر ماں جو خواب میں آئی
روپڑا میں تو ہچکیاں لے کر
اپنے حصوں سے سب ہی ناخوش تھے
مطمئن ایک میں تھا ماں لے کر
وقت کے ساتھ کاروبار کیا
سُود دینا پڑا ، زیاں لے کر
میں نے لے لی “بیاض والد کی “
خوش تھے بھائی بہن مکاں لے کر