رہے یہ دھوپ چھاؤں نہ کوئی بچ ہی پائے
کہ فطرت کے آگے ہی سبھی نے سر جھکائے
جو ہے لاٹھی خدا کی نہ تو آواز اُس میں
جو اربابِ ستم کے کبھی چولیں ہِلائے
خدا گنجے کو نہ دے کبھی ناخن یہ بہتر
جو کوئی نا اہل ہو وہ تو طوفان لائے
خربوزہ دیکھ کر رنگ پکڑے ہی خربوزہ
جو ہو صحبت ہی اچھی تو کیوں نہ گن ہی آئے
لکھا قسمت کا جو ہو وہ تو مل ہی جاتا ہے
مہر ہو دانے دانے پر تو کیوں مایوسی چھائے
کوئی ہو با ادب تو ملے عزت اُسی کو
جو کوئی بے ادب ہو اُسے ذلت ستائے
ہمارا میکدہ بھی تو ہے سب سے نرالا
کوئی جامِ محبت پی کر بس جھوم جائے
یہی جذبہ رہے گا ہمیشہ اثر کا بس
نظر ہو سب پہ یکساں سبھی کے دل کو بھائے