ریگِ رواں و ، سراب ایک کر دو نا
تقدیر میں میری ، عذاب ایک کردو نا
میری مسافتوں کو بھی تسکینِ جاں ملے
ہم نشین و ہم ، رکاب ایک کر دو نا
مجھے ٹالنے کے تمہارے پاس کتنے بہانے ہیں
شاٸع تم ، کتاب ایک کر دو نا
اقتدار سے پہلے جو امیدیں دلاٸ تھیں
پوری کوٸ ، جناب ایک کر دو نا
چاہتے ہو گر غریب کے حق میں بھی برتری
ملک کا تعلیمی ، نصاب ایک کر دو نا
رعایا کو شبُہ ہے شاہ کے یقین پر
کُھل کر کبھی ، خطاب ایک کردو نا
اخلاق جب سب ہی فرقوں کے خلاف ہیں
تو مسجد ، ممبر و ، محراب ایک کر دو نا