زخموں کو اپنے میں تازہ کر لوں
چل اے زمانے تجھ سے کچھ اورمحبت کر لو
تیرے طعنوں تشنئ سے جی نہیں بھرا ابھی
کچھ دیر تو اور تیری زیارت کر لوں
جاؤ کہاں تیرے بغیر لگتا نہیں پاپی من
کیوں نہ اب تجھ سے بغاوت کر لوں
بدلے میں وفا کے ملی بیوفای
اچھا ہے اب تجھ سے میں کنارہ کر لوں
سمجھایا تھا تجھے یہ دنیا نہیں قابل تیرے
کیسے قبول میں یہ حقیقت کر لوں