دشت وحشت ے دل تو عاری ہے
خوف ہجرت کا مجھ پہ طاری ہے
اس نے جیتی ہے جنگ باتوں سے
جس کے لہجے میں انکساری ہے
ایک دن تو میں ڈھونڈ لوں گی اسے
میرا خوابوں میں گشت جاری ہے
کیا ملیں گے وفاؤں کے نمبر
دل کا پرچہ تو اختیاری ہے
کس نے بوئے یہ گل وفاؤں کے
دل کے آنگن میں جو کیاری ہے
اور کسی سے میں کیا کروں شکوہ
زخم میرا ہی مجھ پہ بھاری ہے
اس کی جھوٹی انا ہے کیا وشمہ
میرا ہر عزم اس پہ بھاری ہے