دنیا بدل گئی ہے زمانہ بدل گیا ہے
زندگی جینے کا انداز پرانہ بدل رہا ہے
دوست احباب سارے خود غرض بن گئے ہیں
وقت کے ساتھ ساتھ یارانہ بدل رہا ہے
خون کے رشتے سارے پانی ہو گئے ہیں
ہر ایک رشتہ خود سے بیگانہ بدل گیا ہے
پھر نہ کہیو کہ لیلا تنگ تھی مجنوں سے
اک غلط فہمی ہے سب بیانہ بدل گیا ہے
جب عشق وہی ہے تو عاشق نہ ہو کیوںکر؟
سن بے عقل کے اندھے زمانہ بدل گیا ہے
ہر دل حسن کے آگے گھٹنے ٹیکتا ہے
ٹیکے بھی نہ کیوںکر کہ معاشقانہ بدل گیا ہے
ڈہونڈہوں کہاں؟ اس کو اب اے دل نادان
سنا ہے کہ وہ بستی ٹھکانہ بدل گیا ہے
کل جس پر نازان تھا دل یار اسد اپنا
آج وہی شخص جان جانہ بدل گیا ہے