گل کو آ کر چھوتی ہے اس انداز سے ہوا
ہر شاخ دیتی ہے دعا
ہر پتے مے بھری ہے وف
کہ گیت گاتی ہے اسکے صبا
گل سے جو پھول پھیلی ہے فضا
یاد آنے لگی جنت کی ہوا
آزاد ہو گئے تمام پنچھی واہ رے واہ
چہکتی بلبل بھی آنکلی معاملہ یہ کیا ہوا
چوٹئے گلاب سے ٹپک رہاتھا نشہ
مے نے بھی بے خودی مے آ کے چکھ لیا
زمرہ عقل سے باہر تھی یہ ادا
جبھی تو ہو گئی آدم سے خطا