زندگی اب تو سزا لگتی ہے
کسی کی بد دعا لگتی ہے
پوچھوں کس سے خطا اپنی
ساری دنیا خفا لگتی ہے
غم ملا جتنے رنگ بدل کر
ساری ان کی عطا لگتی ہے
خون ہی شاید سفید ہو گیا
بات یہ مگر خدا لگتی ہے
طوفاں تھمتا نہیں آج کی رات
منہ زہر ایسی ہوا لگتی ہے
شہر آت کس طرح راس مجھے
زہر یہاں کی صبا لگتی ہے
کیا کہوں تجھے اے دوست
جفا تیری ہر ادا لگتی ہے
طاہر ذرا بتاؤ تو سہی
شب فراق تیری کیا لگتی ہے