زندگی بھی چھن گئی اور موت بھی نہیں ملی
ہم نے جیسی چاہی تھی ویسی بندگی نہیں ملی
در بدر کے راستوں کی دھول میں ملتے گئے
اپنے من کی باس تن کی خاک بھی نہیں ملی
ہم نے بس اک مرکزے کے گرد رہنا چاہا تھا
چھوٹی سی ایک آرزو تھی بس وہی نہیں ملی
یہ کیا ہوا کے ہم بھی دنیا کا چلن جلنے لگے
اپنی فطرت میں تھی جو وہ سادگی نہیں ملی
آہ عظمٰی کیا کریں کہ جستجو کرنے پہ بھی
دل کو جو سکون دے وہ راستی نہیں ملی