دن میں دیپ جلائے نہیں جاتے
یوں مقدر مٹائے نہیں جاتے
دشمنی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں
یوں ہی گھر جلائے نہیں جاتے
خوش مزاجی سے جیت لوگوں کو
دلوں میں یونہی گھر بنائے نہیں جاتے
کسی کے آنے کی اگر امید ہو
نشاں قدموں کے مٹائے نہیں جاتے
پہلی بارش سے ہی دھل جائیں
ایسے رنگ چڑھائے نہیں جاتے
دھوپ چاہے جدھر سے بھی آئے
گھنے پیڑوں کے سائے نہیں جاتے
عثمان زندگی جو سبق سکھاتی ہے
وہ نصابوں میں پڑھائے نہیں جاتے