الجھنوں کو بڑھائے جاتی ہے
زندگی دندنائے جاتی ہے
گردنِ آرزو پہ عسرتِ دم
آج خنجر چلائے جاتی ہے
جو کرم بار تھی وہی ہستی
بے سبب ظلم ڈھائے جاتی ہے
دھوپ جاتی ہے صحنِ جاں میں تو
کھا کے سارے ہی سائے جاتی ہے
دیکھ کر اپنی بے بسی امید
خود پہ خود مسکرائے جاتی ہے
سربُریدہ امنگ کو دیکھو
لاش اپنی اُٹھائے جاتی ہے
آندھیاں راستہ نہ بدلیں گی
سوچ دیپک جلائے جاتی ہے
عادتِ درد ہو گئی اتنی
صورتِ درد بھائے جاتی ہے
ساز سب ہو گئے ہیں بے آواز
خامشی گیت گائے جاتی ہے
ہاتفِ رنج کی صدا جس گھر
جاتی ہے ، بِن بلائے جاتی ہے
دیکھتی ہوں کہ آجکل قدرت
صبر کو آزمائے جاتی ہے
آج عاشی غزل کے ماتھے پر
غم کا جھومر سجائے جاتی ہے