زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ترک الفت کے بعد امید وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی
اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی
شاخ سے موج گل تھمی ہے کہیں
ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
اندھے ذہنوں سے سوچنے والوں
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی
بارشیں کیا زمین کے دکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی
اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی