محرومیاں رہیں گی سدا کچھ بات کے چلتے
مکرےہوئے کچھ فیصلے و جزبات کے چلتے
دور کو جانا تها وہ بے رخ نکل گیا
باقی رہیں گی اس کی جهلک احساسات کےچلتے
عوام کی باری ہےاب یہ مجھ پے ہنسےگا
بخشی ہوئ لمحوں کی صوغات کے چلتے
نگاہوں میں بسا کرتا تها جو خوش رو و تبسم
سارے سمٹ چوکے ہیں اب نزلات کے چلتے
سن نا ہے مجھے صرف اب سننا ہےسبهوں کو
تائب ہے اپنے بس میں خواہشات کے چلتے
لوٹ جاتاہو کبهی پهرسے اس اجڑےچمن میں
کاوش بهری زندگی و تصروفات کے چلتے
شرم سار سا جیون جیئے کب تلک کوئ
پر جینا ہی پڑ تا ہے حیات کے چلتے
اب جائوں کہاں دور اس حالات سے اے پلک
الجھا ہوا سا رہتا ہوں اس حالات کے چلتے