سیاہی نصیت ہوگئ شبِ تار کی مانند
عجب طوفان لے ڈوبی قہر قہار کی مانند
سُنسان کردی عجب یک لخت خزان اکر
بستی ویران کردی اُجڑے دیار کی مانند
نہ تھا اگر دل میں وعدہء الفت نبھانے کا
جلایا کیوں میرے دل نمرود نار کی مانند
کیا ہے خون جیسے دنیا کے ارمانوں کا
اُڑا لے طوفان اُس سے شئے نا پائدار کی مانند
پچھتاکر زندگی بھر بھٹکتے گھومتے پھرے وہ
نہ پائے کسی بھی در اس وفا شعار کی مانند
بھول گئ تحفہ وہ بھلا کر قسمیں سبھی رسمیں
پہنایا تھا کسی نے کیا میرے مُقدس ہار کی مانند
پوشیدہ فریت تھی سراسر اس محبت میں
وجود کو مرے کاٹی اُس نے نیزہ و تلوار کی مانند
ہوجائے بے چین وہ یوں راتوں میری طرح
نہ ہو اس کو کبھی نصیب دلسوز دلدار کی مانند