زندہ رہیں بھی تو کیا مر جائیں بھی تو کیا
سر شام دنیا سے گزر جائیں بھی تو کیا
اپنی ھستی بھی کیا ہے اس زمانے کے سامنے
خشک پتوں کی مانند بکھر جائیں بھی تو کیا
کون منتظر ہو گا اب ھمارے لیے وہاں
رات بہت گہری ہے گھر لوٹ جائیں بھی تو کیا
درد جدائی تو اب ساتھ رہے گی عمر بھر
سنگ درد کے دیکھو اب مسکرائیں بھی تو کیا
اب تم ہو غم ہے اور بس تنہائی ہے تنویر!
قصہ غم بھلا کسی کو سنائیں بھی تو کیا