زہ نصیب وہ ہمارے دولت کدے پہ آئے ہیں
اے بےبسی بلاؤ بدنصیبی کو دیکھو شباب ملنے آئے ہیں
جو کھولی کتاب حیات ھم نے پڑھنےکےلیے
پھٹے پڑے تھے صفحات الفاظ تھے مٹے ہوے
وہ میرےخوابوں کی تعبیر ہے یا کوئی سپنا میرا
ساری دنیا میں ایک وہی لگتا ہی اپنا میرا
ایک مانوس سی آواز گونج رہی تھی میرے دیار پہ
وہ آج مجھ کو ہی مانگ رہا تھا میرے مزار پہ
اسے دیکھا نہیں پھر بھی وہ اچھا لگتا ہے
اپنے لب و لہجے سے مجھے وہ سچا لگتا ہے