میری سمت چلنے لگی ہوا کہ چراغ تھا میرے ہاتھ میں
میرا جرم صرف یہی تو تھا کہ چراغ تھا میرے ہاتھ میں
وہاں آفتاب ہتھیلیوں پہ لیے ہوئے کئی لوگ تھے
مجھے اپنا آپ عجب لگا کہ چراغ تھا میرے ہاتھ میں
مجھے اپنے پیاروں کی صورتیں ذرا دیکھنا تھیں قریب سے
نہیں چاند تارے ملے تو کیا کہ چراغ تھا میرے ہاتھ میں
نہیں دم گُھٹا میرا حبس میں، مجھے روشنی کی طلب جو تھی
میں ہوا کو کیسے پکارتا کہ چراغ تھا میرے ہاتھ میں
میرے اہلِ خانہ کو کیا خبر کسی آفتاب کی آس ہو
اسی ڈر سے میں نہیں گھر گیا کہ چراغ تھا میرے ہاتھ میں