سارباں نہ ملا کارواں نہ ملا
یہ زمیں نہ ملی آسماں نہ ملا
خاک دل ہو گیا پر نشاں نہ ملا
آگ جلتی رہی پر دھواں نہ ملا
دشت میں دور تک میں بھٹکتا رہا
پر کسی منزلت کا نشاں نہ ملا
میں سلگتا رہا اور بھٹکتا رہا
راستے میں کوئی مہرباں نہ ملا
بات کرتے رہے بات بنتی گئی
لفظ ملتے رہے پر بیاں نہ ملا
کوئی کیسے سمجھ پاتا اسکا بیاں
کہ جسے کوئی بھی ہم زباں نہ ملا
راہ شوق کا راہی اکیلا ہی رہا
اس سفر میں کوئی رہنما نہ ملا
نامہربانوں کے شہر میں آج تک
نہ ملا نہ ملا مہرباں نہ ملا
عظمٰی ہمیں یہ شکایت رہی کہ
ہمیں کچھ سفر کا ساماں نہ ملا