سارے موسم سہانے ہوتے
آپ ہمارے دیوانے ہوتے
ہم شمع کے جیسے ہوتے
آپ کوئی پروانے ہوتے
ہجر کی صدیاں لمحوں جیسی
وصل کے پل زمانے ہوتے
جز اپنی چاہت کے ہم
ہر شے سے بیگانے ہوتے
عشق میں ایسے کھوئے جاتے
ہم خود سے انجانے ہوتے
ایک حقیقت کے پیچھے
سو، سو پھر افسانے ہوتے
آپ ہمارے دیوانے ہوتے
سارے موسم سہانے ہوتے