ساقی تیرے فراق میں خود کو بدل چکے
اُلفت کی تیرے معے ٔکی صحرایٔ اونڈل چکے
تری نگاہ میری طرف اب پڑی کے جب
محفل کی شمع بجھ گییٔ پروانے جل چکے
آتشِ عشق سے بھلا عاشق بچے گا کیا
خود کی لگایٔ آگ میں خود ہی ہیں جل چکے
شاید میرے اصول کبھی با اصول تھے
پر اب میری تقدیر کے فرقے بدل چکے
اب او ر عطاوں کی ضرورت نہیں مجھے
ہم اپنے رب سے اپنی طبعیت بدل چکے
جب سے طبعیتوں کا ہو ا ہیر پھیر ہے
سیرت بدل چکی ہے شریت بدل چکے
دھوکا بہت ملا بڑی تکلیف بھی سہی
گِر گِر کے راہِ عشق میں اب ہیں سنبھل چکے
زرّہ ِ کو آفتاب کیا عشق نے میرے
لیکن براے ٔ راہ کچھ ہم بھی بدل چکے
ملِ جاے ٔ گر جو راہ تو یہ راہ چھوڑ دیں
پر کیا کریں کہ دِل سے ہی آگے نکل چکے
میں تو بدل بدل کے ہوں راہیںٔ بھی تھک گیا
ہر راہ نیٔ عشق کے سانچے میں ڈھل چکے
کیسا ہے عشق کیسی ہے یہ راہ نہ پوچھیے
کیسے کہیے کہ آبلے دِ ل کے اُبل چکے
اصغر ؔ کی زباں گنگ قلم بول رہا ہے
ایک آگ کے دریا سے ہیں ہم بھی نکل چکے