کچھ نہیں تھا تو پھر کیا تھا
راہ بدلنے کا سباب کیا تھا
بدگمانی تو مجھے تھی لیکن
تیرے انداز بدلنے کا سبب کیا تھا
درمیاں برسہا برس کا تعلق
بے رُخی کا سبب کیا تھا
عہد تھا مجھ سے زندگی بھر کا
ہاتھ چھڑانے کا سبب کیا تھا
تھا دل و جاں میں بسایا تجھ کو
بے وفائیوں کا سبب کیا تھا
کر کے برباد رکھ دیا مجھ کو
اتنی رسوئیوں کا سبب کیا تھا
ہر قدم ایک ستم ہے روا رکھا مجھ پر
کیا عداوت تھی سبب کیا تھا
جاننا چاہا بھی احمر اُس سے
کچھ نا بتلایا سبب کیا تھا