سب سہنا ہے مجھے
اب یہی رہنا ہے مجھے
نہ راہی کوئی نہ منزل کوئی
اب بے وجہ جیناہے مجھے
ذوق نظر کیا کےکوئی
جب آئینہ ہی نا رہے
ایسے علم میں
سب پیمان وفا
بذلی پاس وضع سب کھونا ہے
ابن آدم کہ اس کھیل میں
اپنےآنچل میں کچھ پھول بھر ے
انہی کانٹوں کے سنگ خوش رہنا ہے مجھے
پھر وہی طلب
پھر وہی حوس
آہ اے شام
یہ کیسے پھر جینا ہے مجھے