کتنا بھرا ہوا ہے ستاروں سے آسماں
روشن ہوا زمیں تلک یہ سارا آسماں
آنگن سے کھلے آسماں کی اور جو دیکھا
منظر تھا وہ کہ مجھ سے نہ ہو سکا بیاں
گہری سیاہ رات اور جگنوؤں کے دیس میں
دل کش حسیں نظارے جیسے رواں دواں
سرد سیاہ رات میں کہکشاؤں کا سفر
کرنوں کا وہ تسلسل آنکھیں ہوئی حیراں
جیسے کہ چمکتی ہوئی بوندوں کے شور نے
چپکے سے سنا دی ہو میرے کان میں اذاں
پہلے تو آسماں پہ ہی نظریں جمی رہیں
پھر یوں لگا روشن ہوا یہ سارا ہی جہاں
میرا سیاہ وجود ستاروں میں کھو گیا
روح میں جیسے نور نور ہو گیا رواں
نظر میں روح میں قلب میں وہ روشنی ہوئی
اجلا جہاں ہونے لگا دیکھا یہاں وہاں
قطرہء شبنم میں موتی میں ستاروں میں
ریت کے ذروں میں بارش میں ہیں عیاں
قدرت کے نور کے نظارے آشکار ہیں
کل کائنات میں نظر اٹھے جہاں جہاں
کتنا بھرا ہوا ہے ستاروں سے آسماں
روشن ہوا زمیں تلک یہ سارا آسماں