سج کے مشک و حنا میں نکلے ہیں
کیسی قاتل ادا میں نکلے ہیں
دیکھنا کھا نہ جائیں وہ ٹھو کر
تن کے اپی انا میں نکلے ہیں
جانتے ہوں گے آندھیوں کا مزاج
جو پر ندے ہوا میں نکلے ہیں
بڑھ کے ہیں موتیوں سے وہ آ نسو
جو غم کر بلا میں نکلے ہیں
پاک طینت جنھیں سمجھتے تھے
خنجر ان کی قبا میں نکلے ہیں
لے کے سب ان سنی دعا ؤں کو
ہم تلاش خدا میں نکلے ہیں
ترک کرنے تھے انھیں سب رشتے
عیب میری وفا میں نکلے ہیں
مے فقط باعث سرور نہیں
زہر بھی اس بلا میں نکلے ہیں
اے حسن ہم بھی سر پہ باندھے کفن
آج راہ وفا میں نکلے ہیں