سحر جیتے گی یا شام ِ غریبَاں دیکھتے رہنا
یہ سر جھکتے ہیں یا دیوار ِ زنداں دیکھتے رہنا
ہر اک اہل ِ لہو نے بازیء ایماں لگا دی ہے
جو اب کی بار ہوگا وہ چراغاں دیکھتے رہنا
ادھر سے مدّعی گزریں گے ایقان ِ شریعت کے
نظر آجائے شاید کوئی انساں دیکھتے رہنا
اُسے تم لوگ کیا سمجھو گے جیسا ہم سمجھتے ہیں !
مگر پھر بھی کریں گے اس سے پیماں دیکھتے رہنا
سمجھ میں آگیا تیری نگاہوں کے الجھنے پر !
بھری محفل میں سب کا ہم کو حیراں دیکھتے رہنا
ہزاروں مہرباں اس راستے پر ساتھ آئیں گے
میاں یہ دل ہے یہ جیب و گریباں دیکھتے رہنا
دبا رکھو یہ لہریں ایک دن آہستہ آہستہ
یہی بن جائیں گی ، تمہید ِ طوفاں دیکھتے رہنا