سحر ہوئی ہے اجالا سا ہے ہر طرف شباب
زور اسکے گیسو رخ سے ہٹ گئے ہونگے
وہ جب بھول گیا مجھ کو تو میں پہنچا اس تک
شباب دو گام کا رستہ بھی لگا مجھے صدیوں جیسا
راز کی بات کہو ں جان ادا یہ مسکرانا تیرا
پیار بن جائے نہ کہیں یہ مسکرانا تیرا
پتہ ہی نہ ملا مجھ کو میرے ہونے کا
یہ کیسی تلاش میں نکلا کہ خود کو بھول گیا
ہمیں تو دل کی بات کہنے کا ڈھب ہی نہ آیا
مزاج یار ہی سادہ تھا شباب ہم کیا کرتے