ایک دریا نما سراب تھا وہ
زندگی کی کھلی کتاب تھا وہ
غم کی جاگیر میں وہ رہتا تھا
اپنی جاگیر کا نواب تھا وہ
تیرے جتنے سوال ہیں اس کا
خوبصورت سا اک جواب تھا وہ
مجھ کو دکھ جتنے بھی ملے اب تک
ایک بس میرا ہمرکاب تھا وہ
سخت سی دھوپ کی تمازت میں
سر پہ میرے گھنا سحاب تھا وہ
پھول جتنے بھی میں نے دیکھے ہیں
سحر کا کھلتا اک گلاب تھا وہ
پرکھوں جو اپنے خوابوں کو سارے
سب سے میرا حسین خواب تھا وہ