سرِ شام خود کو جلانا چھوڑ دو
کسی کی یاد میں آنسو بہانا چھوڑ دو
خراج مانگ نہ لیں کہیں آنسو بھی اپن
ہر کسی کو یوں رولانا چھوڑ دو
وہ میرا نہیں میرا نہیں اے دل
تم بے بات بات بڑھانا چھوڑ دو
لہولہان نہ ہو جائیں ہاتھ تمہارے
بکھری کرچیاں میری اٹھانا چھوڑ دو
گزر چکا ہے جو اک طوفان اٹھا کر
تنہائیوں میں اس کا نام لینا چھوڑ دو
مفلس ہو نہ جاؤ تم محبت میں
وفائیں ہر قدم پہ آزمانا چھوڑ دو
یا مجھے بھول جاؤ حرف ء غلط کی طرح
یا لکھ کر مجھے مٹانا چھوڑ دو
اسے کہہ دو عنبر وہ اجاڑ چکا ہمیں
اجڑی بستی کو اب بسانا چھوڑ دو