سرد رُت کا دن بہت پُر افکار ہوتا ہے
سترنگی کرنوں کو ترسے سوچ بچار ہوتا ہے
عجیب محبت ہے یخ ٹھنڈک سے جسے
چُھپ بیٹھا کہیں کمبل میں وہ حُسنِ یار ہوتا ہے
لگتا عالمِ بالا سے دودھ کی بارش ہوئی ہے
کہیں سبزہ ، کہیں ویرانہ ، کہیں اُجاڑ ہوتا ہے
شہر میں آج بھی جیسے ہُو کا سا عالم ہے
سُنو! کمرے میں رہنا اس بات پہ بھی اصرار ہے
کر کے آفس سے چھٹی یوں سوتے رہنا
چھایا ہم پہ کس قدر دن بھر نیند کا خمار ہوتا ہے
کچھ لمحے سہی جب روشنی مانند پڑ جائے
تو سورج، چاند سامنے اسکے شرمسار ہوتا ہے
چادر کی طرح چھا جاتا ہے دبے پاؤں آکر
میرے مولا سماں یہ دھند کا کتنا پُر اسرار ہوتا ہے