سمندر ، سمندروں سے ملتے رہے
کچھ سفینے یوں ہی سفر کرتے رہے
اداس شام دل کی طرح ہیں آج
ہم بے وجہ کاغذوں پر درد لکھتے رہے
کس سے کریں شکوہ ۔ کون ہیں مجرم ہمارا
دعاوں میں ہاتھ ُاٹھا کر ہم یوں ہی سیسکتے رہے
ُاس کے در پر بیٹھانا اور خاموش رہنا
ہم اپنے ضبط کو یوں بھی آزماتے رہے
وہ میرا کچھ نہیں لگتا جو کے سب کچھ ہے
پتھر کے صنم پر ہم یوں ہی مرتے رہے
آنسوؤں کا سفر اب بند کر دیا ہم نے
اب ہنس ہنس کر دل بہلاتے رہے
وہ خود غرض تھا جو آٰیا تھا
ہم نجانے کس لیے دیپ جلاتے رہے