سنا ہیں خواہشیں پوری نہیں ہوتی
یہی سوچ کر تجھے اپنی ضرورت کر دیا
کتنے ہی الفاظ یوں تو لکھے مگر
آخری لفظ کی خاطر ایک اور کاغذ بھر دیا
انتظار دل سے نکل کر آنکھوں میں کب آیا ؟
ہم نے تو روتے روتے سحر کر دیا
ہاں ! اب ٹوٹی ہوں تو کوئی سہارا بھی نہیں ہیں
خود کو آج ُخدا کے بوالے کر دیا
اب محبت نہیں ّغزت کی طلب جاری ہے
دعا کہ لیے ہاتھ ُاٹھائے - تو آنسووں نے چہرہ نم کر دیا
اے باد صباہ آج پوچھ کے تو آنا ُان سے
ابھی آیا کہہ کر کیوں سورج غروب کر دیا