سنگ ودر میں بھی آبلہ پا, سا بنا رکھا ہے
یا مہر ثبت ہے جو لبوں پہ لگا رکھا ہے
آغوش سکوں میں بھی کچھ تو ہے ورنہ
پھر آخر کیوں یہ طوفاں سا اٹھا رکھا ہے
کیا جانے , اب کے در مقصد حیات
پل دو پل کا سلسلہ اور مسافتوں میں روا رکھا ہے
یہ کیا فکر ہے در زمیں و زماں
ہر حد نے بھی تو لا محدود بنا رکھا ہے
اکیلی ہی اس رخت سفر میں نہیں ہوں سمیعہ
کوئی تو ہے جو نگارش میں روا رکھا ہے