لمحہ لمحہ
زندگی مر رہی تھی
میں نے دیکھا
انساں کے ہاتھوں جنت جل رہی تھی
لٹے پٹے سے قافلے
بے شمار
جنت سے نکلے
حور و انسان و فرشتے
بے شمار
روتے
بلکتے
سسکتے سارے
جنت سے دور چلے جارہے تھے
اپنی بقا کی خاطر
سارے بہ سوئے دوزخ جارہے تھے
باغ جنت سے دھواں اٹھ رہا تھا
آہ
درختوں سے آگ لپٹی تھی
اور انسان نما چڑیلیں اور دیو
ان کے اردگرد طوافیں کرتے تھے
جو اپنے مردہ بہن بھائیوں کا
سرخ گوشت اس خوشی سے کھاتے تھے
جیسے بھوکے کباب کھاتے ہیں
آب زم زم کے صاف چشموں میں
بہہ رہاتھا لہو معصوموں کا
اور شیطان نما انسان ان میں
نہاتے
گاتے
ہنستے
ناچتے تھے
اور اپنے ہی بھائیوں کا خون
ایسے پیتے تھے
جیسے کہ مے خوار
میکدوں میں شراب پیتے ہیں
یہ وہ انساں تھے
ہاں۔ یہ انساں تھے
جن کی عظمت کو کبھی
فرشتے تک سلام کرتے تھے
آج
ان کو دیکھ کر فرشتے تو کیا
سارے شیطان محو حیرت تھے
کبھی جو شرم کی علامت تھے
جملہ حقوق محفوظ۔