سوچ کے گہرے سمندر میں اترنا ہے مجھے
آگہی کی آخری حد سے گذرنا ہے مجھے
ہمتوں کے خوبصورت چُن رہی ہوں پھوُل میں
زیست کا اُجڑا ہوا موسم بدلنا ہے مجھے
راستے میں ایک دو پل کو پڑاؤ ہیں مِرے
اور آگے ہے مِری منزل کہ چلنا ہے مجھے
کچھ گھنے بادل تھے میری ذات پر چھاۓ ہوۓ
بن کے سوُرج روشنی کا اب نکلنا ہے مجھے
توُ نے رفعتؔ کے لیۓ کچھ بھی نہیں اب تک کیا
اپنی خاطر کچھ نہ کچھ اب کر گذرنا ہے مجھے