سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ گرد رقیبوں نے
خطبے میں لیکن نام ہمیں لوگوں کاپڑھا خطیبوں نے
شب کی بساطِ ناز لپیٹو، شمع کے سرد آنسو پونچھو
نقارے پہ چوٹ لگادی صبح کے نئے نقیبوں نے
کس کو خبر ہے رات کے تارے کب نکلے کب ڈوب گئے
شام و سحر کا پیچھا چھوڑا آپ کے درد نصیبوں نے
امن کی مالا جپنے والے جیالے تو خاموش رہے
فتحِ مبیں کے جھنڈے گاڑے شہر بہ شہر صلیبوں نے
انشاء جی اب آئے ہو دو بیت کہو اور اُٹھ جاو
تمہی کہو تمہیں شاعر مانا کب سے بڑے ادیبوں نے