ہم سخن اچھّا لگا وہ ہم زبان اچھّا لگا
سچّ کہا اس نے مگر اسکا بیان اچھاّا لگا
بےنیازی میں بھی تھی ہم پر نظر جناب کی
بے دھیانی میں جو ہم پر تھا دھیان اچھّا لگا
بوئے خام خاک سے مہکا ہوا آنگن تیرا
اور آنگن کے گِرد وہ کچّا مکان اچھّا لگا
صبح صبح نور کی چادر لپیٹے دور تک
آسمانی رنگ کشادہ آسمان اچھّا لگا
سر جھکا کر بیٹھنا اسکا ہمارے درمیاں
مثلِ مہماں ایک انوکھا میزبان اچھّا لگا