سچ کہہ ہی دیا‘ آج مرے کان میں آ کر
دنیا کو سمجھنا ہے تو‘ خاموش رہا کر
منت کے چراغوں کو لبِ بام سجا کر
خود بیٹھ کے تنہائی میں اب رنگ بھرا کر
آسیب کچھ ایسا ہے مکیں اور مکاں پر
دل ڈوبنے لگتا ہے مرا جسم جلا کر
قطرہ کبھی دریا کے برابر بھی ہوا ہے؟
وہ مانگنے نکلے بھی تو کشکول اُٹھا کر
سچ پوچھ تو ساقی سے مراسم ہیں پرانے
اِک عمر گزاری ہے یہاں ہوش میں آ کر
دیوانہ جو کہتی ہے‘ تو کہتی رہے دنیا
جس کام کو کرنا ہو‘ وہی کام کیا کر
اب طائرِ بے پر کو ہے پرواز سے فرصت
دنیا کے بکھیڑوں سے کہیں دور ملا کر
وہ شخص ابھی اتنا بھی کمزور نہیں ہے
لوٹ آئے گا اِک روز در و بام گرا کر
اب جھوٹے سہاروں سے بہل جاتا ہےعامی
آنگن میں ترے نام کا اِک دیپ جلا کر