اٹھا رکھا ہے بوجھ اس نے سب کاندھوں پر اپنے
نہیں کرتا شکایت ہاں مگر وہ تھک سا جاتا ہے
تاریکیوں سے نکالتا ٹھوکروں سے بچاتا یے
میری جیت پر کھل سا میری ہار پر مرجھا سا جاتا ہے
ہے سورج کی مانند مضبوط ستون ہر اک گھر کا
ہے مضبوط مگر اکثر خود بھی ٹوٹ سا جاتا ہے
نہیں دولت ضروری اس کی فقط سایا ہی کافی ہے اس کا
کہ اک رضا میں اس کی رب بھی راضی سا ہو جاتا ہے
وہ باپ ہی ہے سہارا میرا اور اب بننا ہے یسرٰی فخر اس کا
کہ بس مسکراہٹ سے ہی اس کی دل کو سکون سا مل جاتا ہے۔