سکھائے وقت نے اطوار صد ہزار مجھے
کہ اب تو چوٹ بھی رہتی ہے سازگار مجھے
نکال دے مرے دل سے ادا و ناز سبھی
بگڑ گیا ہوں غم زندگی سنوار مجھے
میں تیرے پاس گھڑی دو گھڑی کا مہماں ہوں
اگرچہ وقت کڑا ہوں مگر گزار مجھے
دیا جو ہاتھ مرے ہاتھ میں تو چپکے سے
تھما گیا ہے کوئی درد بے شمار مجھے
یقیں بھی ہے کہ اسے لوٹ کر نہیں آنا
مگر ہے شام و سحر پھر بھی انتظار مجھے
کوئی تو ہے پس دیوار و در نہاں عزمیؔ
پکارتا ہے سر شام بار بار مجھے