آنسؤ ہیں مگر مچھ کے یہ رونا ہے دکھا و ا
ہر غم کا فقط ہوتا ہے دعوؤں سے مدا وا
امداد کا کہہ کر یہا ں ذلت ہو ئی تقسیم
زخموں پہ نمک چھڑ کا ہے مرچوں کے علا وہ
کل تک جو مسیحاء کے نقا بوں میں کھڑ ے تھے
غا ئب ہیں وہ منظر سے یہا ں مثل چھلا وہ
حسرت زدہ چہروں کے لبوں پر یہ دعا ہے
آجا ئے انہیں جلد اجل کا ہی بلا وہ
برباد ہو ئے خانہ خرا بوں کے دلو ں میں
پکتا ہے بغا وت کا وہ نفرت زدہ لا وا
بپھرے ہوئے دریا تو جنوں خیز تھے لیکن
بند توڑ کے طاقت کو دیا کس نے بڑھا وا
مٹی کے وہ غربت کی علامت جو نگر تھے
بیماری و فاقوں نے کیا ان پہ چڑھا وا