میں درخت کی ٹھنڈی چھایا تلے کھڑی
دریا کے کنارے کشتی کا انتظار کر رہی ہوں
چند لمحے بعد
میں خود کو کشتی پر سوار دیکھتی ہوں
میری نظریں دریا کی لہروں پر ہیں
جو سبک خرامی سے بہتی چلی جا رہی ہیں
میں پانی کو دیکھتے ہوئے سوچتی ہوں
کیا یہ واقعی اتنا پرسکون ہے؟
کیا یہ اپنی حدود پہچانتا ہے؟
میرے دل سے ایک آہ نفی کی صورت نکلتی ہے
اور ذہن کے پردے پر
وہ منظر ظاہر ہوتا ہے
جو
میرےعزیز ہم وطنوں کی تباہی کا ہے
یہ پانی جو یہاں دھیمی رفتار سے بہہ رہا ہے
ریلا بن کر انہیں بے بس کر آیا ہے
اور
وہ
کسمپرسی کی حالت میں
اپنے گھروں کو ملبہ بنتے دیکھ رہے ہیں
بڑی بڑی عمارتیں
صرف اس پانی کی وجہ سے منہدم ہوگئی ہیں
کیا یہ واقعی اتنا طاقتور ہے؟
میں جب یہ سوچتی ہوں
تو مجھے دریا وحشت زدہ لگتا ہے
میں اپنی نظریں وہاں سے ہٹا لیتی ہوں
اور پھر
میری ذہنی رو دوبارہ بھٹک جاتی ہے
مجھے ان علاقوں ان بستیوں کا خیال آتا ہے
جن میں ہم سیر کو جایا کرتے تھے
جن کی خوبصورتی ہمیں اسیر کر لیتی تھی
آج جب وہ تباہ ہو گئی ہیں
تو ہم وہاں کا رخ کرتے گھبرا رہے ہیں
ہم ان ننھے میزبانوں کا بھی نہیں سوچتے
جو بھاگ بھاگ کر ہماری طرف آتے تھے
اور ہماری گاڑی کا ٹائر منٹوں میں ٹھیک کرتے تھے
ہمیں راستہ بتاتے تھے کہ
ہمارے گوگل میپ وہاں ساتھ نہیں نبھا سکے
آج وہ ننھے ستارے
مدد کے لیے
انہی راستوں کو تکتے ہیں
کوئی تو آۓ
اور انہیں اپنے ساتھ لے جاۓ
وہاں جہاں زندگی زندہ ہو
میری کشتی کنارے لگتی ہے
اور میں الوداعی نظروں سے پانی کو دیکھتی ہوں
پانی
جو شفاف ہو تو زندگی ہے
اور گدلا ہو تو موت