کیسے شاعر ہیں جو تنہائی میں غزل بنا دیتے ہیں
پھر انجمن میں سُنا کے ساری محفل رُلا دیتے ہیں
کیا شعور بخشا ہے خدا نے اِن فنکاروں کو
مفلسی کا عکس لفظوں میں دِکھا دیتے ہیں
کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں بند کمروں میں
کن گناہوں کی وہ خودی کو چُھپ کے سزا دیتے ہیں
کبھی تارے توڑتے ہیں کبھی ہوائیں موڑتے ہیں
کچھ کہتے بھی نہیں ہر بات سمجھا دیتے ہیں
لکھتا ہے نہال رات کی سیاہی میں آنسو ملا کے
بے درد لوگ پڑھ کے ہنسی میں اُڑا دیتے ہیں