شامیں اداس تھی کب سے
شمعیں بجھی تھی کب سے
ساون کی جھڑی تھی
پاؤں میں تھی پائل
اور آنکھی تھی پر نم
لوگوں کا حجوم تھا تپتی دوپہر میں
نگے پاؤں چلے تھے ہم دونوں
ہوا حکم دل پر بے ساختہ انہیں بھی
اور میرے قدم بھی انجان منزل کی اوڑھ تھے چلے
پلکو کا جھک جانا
آسمان کا برس جانا
ہم دونوں کا مل جانا
کب سمجھ پائے تھے ھم
طلسمی خنجر چلا تھادل پر
زباں شکوہ بنی
اور یوں ٹوٹ گے ہم
سر سے چادر جو سرکی میرے
آسمان لرز اٹھا
دور کہیں دور
زمیں کے اسی ٹکرے پر
میرے شہر کی انھی گلیوں میں
کسی نے سر اٹھا کر سرخ ہوتے آسماں کو دیکھا
اور من میں کہنے لگا
یا رب
آج ضرور کسی کا دل ٹوٹا ہے
جو تو نے آسمان کا رنگ بدلا ہے