شام کے سائے جو پیڑوں سے اُتر جاتے ہیں

Poet: سید عقیل شاہ By: syed aqeel shah, sargodha

شام کے سائے جو پیڑوں سے اُتر جاتے ہیں
ہم بھی چلتے ہوئے پھر تیرے نگر جاتے ہیں

لَوٹ کر آتے ہیں جب رات گئے ہم گھر کو
پاؤں دہلیز پہ رکھتے ہیں تو مر جاتے ہیں

بیٹھ جاتے ہیں یہیں اجنبی پیڑوں میں کہیں
یہ پرندے بھی کہاں لَوٹ کے گھر جاتے ہیں

دُور تک پھیلا ہوا حدِ نظر صحرا ہے
اِس کے رستے کسے معلوم کدھر جاتے ہیں

روز ترکیب بناتا ہوں اُسے پانے کی
روز بے کار مرے سارے ہنر جاتے ہیں

جو بھی ہو تم سے بچھڑنا ہے مگر تیرے لئے
تُو جہاں کہتا ہے چل ہم بھی اُدھر جاتے ہیں

کس قدر سہمے ہوئے لوگ ہیں اُس بستی کے
اپنا سایا بھی نظر آئے تو ڈر جاتے ہیں

سانس قائم ہے تو پھر چلتے رہو تم بھی عقیل
سوکھ جاتے ہیں وہ دریا جو ٹھہر جاتے ہیں

Rate it:
Views: 466
25 Feb, 2013